مرے وجود کے دوزخ کو سرد کر دے گا
مرے وجود کے دوزخ کو سرد کر دے گا
اگر وہ ابر کرم ہے تو کھل کے برسے گا
گلہ نہ کر کہ ہے آغاز شب ابھی پیارے
ڈھلے گی رات تو یہ درد اور چمکے گا
قدح کی خیر سناؤ کہ اب کے بارش سنگ
اگر ہوئی تو طرب زار شب بھی ڈوبے گا
یہ شہر کم نظراں ہے ادھر نہ کر آنکھیں
یہاں اشارۂ مژگاں کوئی نہ سمجھے گا
میں اس بدن میں اتر جاؤں گا نشے کی طرح
وہ ایک بار اگر پھر پلٹ کے دیکھے گا
رواں تو ہوں سوئے افلاک آرزو لیکن
یہ زور موج ہوا بازوؤں کو توڑے گا
اگر ہے شوق اسیری تو موند لے آنکھیں
تو عمر بھر در و دیوار بھی نہ دیکھے گا
تلاش قافلۂ زندگی ہے اب بے سود
یہ رہگذار نفس پر کہیں نہ ٹھہرے گا
نہ آنکھ میں کوئی جنبش نہ پاؤں پر کوئی گرد
جہاں سے اتنا بھی محتاط کون گزرے گا
رہے گی دل میں نہ جب کوئی بھی خلش محسنؔ
بھلا چکا ہے جسے تو اسے پکارے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.