مری آنکھوں کے وہ ٹھہرے ہوئے پانی میں رہتے ہیں
مری آنکھوں کے وہ ٹھہرے ہوئے پانی میں رہتے ہیں
زمانہ بے ادب ہے میری نگرانی میں رہتے ہیں
بسا لیتے ہیں جو آنکھوں میں سپنے آشیانوں کے
ہمیشہ وہ پرندے ہی پریشانی میں رہتے ہیں
گھٹا محتاج رہتی ہے تری آنکھوں کے کاجل کی
ہنسی کے کارواں پھولوں کی افشانی میں رہتے ہیں
میں چھوڑ آیا تھا آنکھیں منتظر ان کے دریچے میں
ہمیشہ وہ اسی جرأت پہ حیرانی میں رہتے ہیں
جھلک ہے غنچہ و گل کے لہو کی اس کی آنکھوں میں
عجب مالی ہے جس کی ہم نگہبانی میں رہتے ہیں
کھلی آنکھیں بھی ہوں ملنا سنبھل کر پھر بھی اے راحتؔ
درندے بھی چھپے اب جسم انسانی میں رہتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.