مری آنکھوں میں جو تھوڑی سی نمی رہ گئی ہے
مری آنکھوں میں جو تھوڑی سی نمی رہ گئی ہے
بس یہی عشق کی سوغات بچی رہ گئی ہے
وقت کے ساتھ ہی گل ہو گئے وحشت کے چراغ
اک سیاہی ہے جو طاقوں پہ ابھی رہ گئی ہے
اور کچھ دیر ٹھہر اے مری بینائی کہ میں
دیکھ لوں روح میں جو بخیہ گری رہ گئی ہے
آئینو تم ہی کہو کیا ہے مرے ہونٹوں پر
لوگ کہتے ہیں کہ پھیکی سی ہنسی رہ گئی ہے
بوجھ سورج کا تو میں کب کا اتار آیا مگر
دھوپ جو سر پہ دھری تھی سو دھری رہ گئی ہے
کچھ بتا اے مرے نسیان یہ کیا ماجرا ہے
بات جو بھولنے والی تھی وہی رہ گئی ہے
یوں تو اس گھر کے در و بام سبھی ٹوٹ گئے
ہاں مگر بیچ کی دیوار ابھی رہ گئی ہے
سوچتا ہوں کہ تصور کو سمیٹوں کیسے
بستر خواب پہ بھی آنکھ کھلی رہ گئی ہے
جانے کیا بات ہے موسم میں ضیاؔ اب کے برس
دھوپ کے ہوتے ہوئے برف جمی رہ گئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.