مری انا کا تقاضا ہے کیا نہ جانے کیا
مری انا کا تقاضا ہے کیا نہ جانے کیا
مرے وجود سے لے جائے گا نہ جانے کیا
ہے تیرے شہر کی آب و ہوا نہ جانے کیا
کوئی تو بات ہے اس میں جدا نہ جانے کیا
اندھیرے رات کے کچھ اور ہو گئے گہرے
لپک اٹھا تھا کہیں نور سا نہ جانے کیا
مرا ہی چہرہ دکھانے کے واسطے مجھ کو
کرے گا مجھ سے طلب آئنہ نہ جانے کیا
مہیب خامشی چھائی ہے شہر اندر شہر
اڑا کے لے گئی پاگل ہوا نہ جانے کیا
ازل ہی سے میں ثنا خوان نکہت و گل ہوں
ہے میرے واسطے باد صبا نہ جانے کیا
بھرے زمانے کو دشمن بنا لیا اس نے
تمام عمر وہ کرتا رہا نہ جانے کیا
کبھی کبھی تو وہ خود سے بھی ہو گیا منکر
کبھی کبھی تو اسے ہو گیا نہ جانے کیا
خود اپنے خون میں خنجر ڈبو لیا اس نے
خوشی کا لمحہ اسے کر گیا نہ جانے کیا
ہوئی جو اس سے ملاقات آج برسوں بعد
تو یوں لگا کہ مجھے مل گیا نہ جانے کیا
وہ چلتے چلتے اچانک ٹھہر گیا تنہاؔ
ہوا نے کان میں اس کے کہا نہ جانے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.