مری ہی سمت بڑھی برق بے اماں کی طرح
مری ہی سمت بڑھی برق بے اماں کی طرح
نئی بہار نے لوٹا مجھے خزاں کی طرح
ہمارے قامت بالا کا کیا خزاں کی طرح
زمیں پہ رہتے ہیں ہم لوگ آسماں کی طرح
قفس کو چھوڑ دیں صیاد کی یہ خواہش ہے
قفس میں رہنے لگے ہم جو آشیاں کی طرح
کہاں رہے گا تمہارے غرور کا عالم
فغاں لبوں پہ اگر آ گئی فغاں کی طرح
تمہارے حسن کی رعنائیاں ہمیں سے ہیں
مٹاؤ ہم کو نہ تم حرف داستاں کی طرح
اب اور پاس وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگا
زبان رکھتے ہوئے ہم ہیں بے زباں کی طرح
تلاش منزل مقصد سے باز آئیں گے
ابھر کے بیٹھیں گے ہم گرد کارواں کی طرح
چمن میں برق کا قصہ تمام ہو جائے
ہم آشیاں کو بنائیں جو آشیاں کی طرح
کروں ادا میں عنایت کا شکریہ کیسے
بڑے خلوص سے ملتے ہو رازداں کی طرح
پلا سکو تو پلاؤ خلوص و ربط کے جام
جو مل سکو تو ملو ہم سے مہرباں کی طرح
وکیلؔ ایک قدم اپنا ہٹ نہیں سکتا
جو امتحان محبت ہو امتحاں کی طرح
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.