مری نظر میں تو لفظ الفت خزاں بھی ہے اور بہار بھی ہے
مری نظر میں تو لفظ الفت خزاں بھی ہے اور بہار بھی ہے
یہ راس آئے تو پھول بھی ہے نہ راس آئے تو خار بھی ہے
بدلتے موسم کی طرح سے جو بدل گیا مجھ کو اپنا کہہ کر
اسی ستم گر سے پھر بھی مجھ کو عجب تو یہ ہے کہ پیار بھی ہے
یہ حسن بھی ہے عجب تماشہ کبھی ہنسائے کبھی رلائے
یہی دلوں کا سکون چھینے یہی دلوں کا قرار بھی ہے
یہ ڈر ہے مجھ کو ترا تغافل کہیں نہ بے موت مار ڈالے
یہ بے نیازی یہ جھوٹے وعدے ترے ستم کا شمار بھی ہے
وہ جھوٹ بولے تو سچ میں سمجھوں فریب اس کا خلوص جانوں
جو فتنہ گر ہے مجھے اسی کا نہ جانے کیوں اعتبار بھی ہے
وہ جس نے آنکھوں کو اشک بخشے وہ جس نے دل کو ملال بخشا
اسی نے مجھ کو کیا ہے رسوا کہ جو مرا رازدار بھی ہے
یہی تو ہے رونق گلستاں نہ توڑ شاخوں سے پھول مالی
انہیں کے دم سے چمن چمن ہے انہیں سے رنگ بہار بھی ہے
یہ عشق وو راہ پر خطر ہے کہ جس سے بس اہل دل ہی گزریں
ہیں خار ہی خار ہر قدم پر مگر یہی لالہ زار بھی ہے
نہ آئے گا دور جانے والا ظفرؔ میں یہ بات جانتا ہوں
نہیں ہے امید واپسی کی مگر مجھے انتظار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.