مری نظر سے جو نظریں بچائے بیٹھے ہیں
مری نظر سے جو نظریں بچائے بیٹھے ہیں
خبر بھی ہے انہیں کیا گل کھلائے بیٹھے ہیں
ہزار بار جلے جس سے بال و پر اپنے
اسی چراغ سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں
جو شاخ شوخیٔ برق تپاں سے ہے مانوس
اسی پہ آج نشیمن بنائے بیٹھے ہیں
پھر اس کے وعدۂ فردا کا ہو یقیں کیسے
ہزار بار جسے آزمائے بیٹھے ہیں
شب فراق کی ہم تیرگی سے گھبرا کر
چراغ زخم غم دل جلائے بیٹھے ہیں
اسے حجاب کہوں یا کہوں پشیمانی
مرے مزار پہ وہ سر جھکائے بیٹھے ہیں
ہم ایک قطرۂ قلب حزیں میں اے اقبالؔ
غم حیات کے طوفاں چھپائے بیٹھے ہیں
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 46)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.