مری نگاہوں پہ جس نے شام و سحر کی رعنائیاں لکھی ہیں
مری نگاہوں پہ جس نے شام و سحر کی رعنائیاں لکھی ہیں
اسی نے میری شبوں کے حق میں یہ کرب آسائیاں لکھی ہیں
کہاں ہیں وہ آرزو کے چشمے طلب کے وہ موجزن سمندر
نظر نے اندھے کنویں بنائے ہیں فکر نے کھائیاں لکھی ہیں
یہ جسم کیا ہے یہ زاویوں کا طلسم کیا ہے وہ اسم کیا ہے
ادھوری آگاہیوں نے جسم کی یہ نصف گولائیاں لکھی ہیں
کنائے پیرائے استعارے علامتیں رمزئیے اشارے
کرن سے پیکر کو زاویے دے کے ہم نے پرچھائیاں لکھی ہیں
سخن کا یہ نرم سیل دریا ڈھلے تو اک آبشار بھی ہے
نشیب دل تک اتر کے پڑھنا بڑی توانائیاں لکھی ہیں
مرے مہ و سال کی کہانی کی دوسری قسط اس طرح ہے
جنوں نے رسوائیاں لکھی تھیں خرد نے تنہائیاں لکھی ہیں
یہ میرے نغموں کی دل رسی تیری جھیل آنکھوں کی شاعری ہے
جمال کی سطح دی ہے تو نے تو میں نے گہرائیاں لکھی ہیں
- کتاب : khamoshi bol uthi hai (Pg. 132)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.