مری قدیم روایت کو آزمانے لگے
مری قدیم روایت کو آزمانے لگے
مخالفین بھی اب کشتیاں جلانے لگے
میں لڑکھڑایا تو مجھ کو گلے لگانے لگے
گناہ گار بھی میری ہنسی اڑانے لگے
دل حریص سے تعمیر کی ہوس نہ گئی
وہ سطح آب پہ کاغذ کا گھر بنانے لگے
کسی کی راہ منور میں معجزہ یہ ہوا
ہمارے نقش کف پا بھی جگمگانے لگے
نہ جانے کس کا ہمیں انتظار رہنے لگا
کہ طاق دل پہ دیا روز ہم جلانے لگے
ہوئے کچھ اتنے مہذب کہ سانس گھٹنے لگی
جنوں پسند گلے تک بٹن لگانے لگے
بدل گیا ہے زمانہ بھی دوستوں کی طرح
مرے حریف بھی مجھ سے نظر چرانے لگے
جنہوں نے کانٹوں پہ چلنا ہمیں سکھایا تھا
ہماری راہ میں وہ پھول اب بچھانے لگے
شروع ہو گیا آنکھوں میں جشن خوش خوبی
ہوئی جو رات تو ہر سمت شامیانے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.