مری شکست کا آغاز کامرانیوں سے
مری شکست کا آغاز کامرانیوں سے
میں جنگ جیتا مقدر کی مہربانیوں سے
میں دیر تک یہیں ساحل پہ بیٹھا رہتا ہوں
مرا مکالمہ ہوتا ہے نیلے پانیوں سے
کبھی کبھی یہ کھنڈر خود مجھے بتاتے ہیں
کہ میرا کوئی تعلق ہے ان کہانیوں سے
ہر ایک دن نیا محشر اٹھا کے لاتا ہوں
میں تنگ آ کے قیامت کی ان نشانیوں سے
وہی کہ جس کی وراثت کا دعویدار تھا میں
جھگڑ رہا ہوں اسی سلطنت کے بانیوں سے
نظر نواز بہاروں کا گیت سنتے ہی
درخت جھومنے لگتے ہیں شادمانیوں سے
چھپا کے رکھوں کہاں تیرے التفات کو میں
بچوں تو کیسے بچوں اتنی بے دھیانیوں سے
ہلا کے رکھ دیا موجوں کی سرکشی نے اسے
الجھتا بوڑھا سمندر کہاں جوانیوں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.