مری تھکن مرے قصد سفر سے ظاہر ہے
اداس شام کا منظر سحر سے ظاہر ہے
نہ کوئی شاخ عبارت نہ کوئی لفظ کا پھول
یہ عہد بانجھ ہے قحط ہنر سے ظاہر ہے
جو پوچھا کیا ہوئیں شاخیں ثمر بدست جو تھیں
کہا کہ دیکھ لو سب کچھ شجر سے ظاہر ہے
فقط یہ وحشت اظہار ہے علاج نہیں
یہ بوجھ یوں نہیں اترے گا سر سے ظاہر ہے
میں اپنی راکھ میں خواہش دبائے بیٹھا ہوں
یہ آگ جل کے رہے گی شرر سے ظاہر ہے
وہ عمر بھر کی اسیری ملی تمنا کو
غریب مر کے ہی نکلے گی گھر سے ظاہر ہے
تو ریزہ ریزہ تعلق سے گھر بنا شاہدؔ
مگر یہ دشت تو دیوار و در سے ظاہر ہے
- کتاب : Subh-e-safar (Pg. 72)
- Author : Saleem Shahid
- مطبع : Ham asr, Lahore (1971)
- اشاعت : 1971
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.