مری وفاؤں کا مجھے وہ یوں حساب دے گیا
مری وفاؤں کا مجھے وہ یوں حساب دے گیا
مرے سمندروں کو چھین کر سراب دے گیا
تجھے خبر ہے تیرا باپ کتنا بےوقوف تھا
کہ جھریاں خرید کر تجھے شباب دے گیا
انا پرست میں بھی تھا مگر یہ عشق ہی تو تھا
کہ تجھ کو خار کے بجائے میں گلاب دے گیا
وصال اور کمال کا یہ سلسلہ رکا ہوا
وہ نار انتظار کا مجھے عذاب دے گیا
کتاب زیست کے سنہرے باب کو مٹا دیا
مجھے طویل ہجرتوں کا اک نصاب دے گیا
میں عشق کی زبان میں کہوں تو کیا کہوں اسے
مرا سکون چھین کر جو اضطراب دے گیا
ترا علاج کاشفؔ اب سوائے صبر کچھ نہیں
مرے پتے پہ عندلیب یہ جواب دے گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.