مثل ابر کرم ہم جہاں بھی گئے دشت کے دشت گلزار بنتے گئے
مثل ابر کرم ہم جہاں بھی گئے دشت کے دشت گلزار بنتے گئے
مجیب خیر آبادی
MORE BYمجیب خیر آبادی
مثل ابر کرم ہم جہاں بھی گئے دشت کے دشت گلزار بنتے گئے
زرد چہرے تھے جھلسے ہوئے دھوپ سے تازگی پا کے گلنار بنتے گئے
جتنا بہتا گیا زندگی کا لہو اور ہوتے گئے حوصلے سرخ رو
سہل ہوتی گئی منزل جستجو راستے اور ہموار بنتے گئے
کچھ سفر کی تھکن سے بدن چور تھا کچھ زمیں سخت تھی آسماں دور تھا
کچھ تری زلف کے سائے بھی تھے گھنے پھر یہی سائے دیوار بنتے گئے
لاکھ آوارہ و آبلہ پا سہی منزلیں تو ہیں قدموں سے لپٹی ہوئی
وہ ہمیں ہیں کہ جب دھن سمائی کبھی برق پا نور رفتار بنتے گئے
اول اول تھیں راہیں بڑی پر خطر کون تھا جز غم دل شریک سفر
پھر جو پڑنے لگی منزلوں پر نظر دوست دشمن سبھی یار بنتے گئے
ہم بھی ٹھہرے مجیبؔ ایک شوریدہ سر جب نہ پایا کوئی قدر دان ہنر
آپ اپنے جنوں کے ثنا خواں ہوئے آپ اپنے پرستار بنتے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.