مٹ گیا سب جو لکھا تھا منتشر اوراق پر
مٹ گیا سب جو لکھا تھا منتشر اوراق پر
خواہشیں حسرت بنیں تو رکھ دیا اک طاق پر
سامنے آتا نہیں ہے کیوں کبھی تو بے نقاب
ظلم اتنا تو نہ کر اس دیدۂ مشتاق پر
بندگی کرنی نہیں تھی اے بشر تجھ کو اگر
ثبت کی تھی مہر کیوں پھر بندھن میثاق پر
جو ہوئے رخصت یہاں سے آسماں پر سج گئے
ڈھونڈھتا ہوں اک ستارہ سرحد آفاق پر
کیوں کہا اہل خرد نے درد کا درماں نہیں
کب کیا تھا ہم نے تکیہ زہر کے تریاک پر
شعلۂ الفت کو نظروں کا تصادم چاہیے
آگ کو جیسے رگڑنا سنگ کا چقماق پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.