معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا
معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا
دور گہرے پانیوں میں راستہ روشن ہوا
جانے کتنے سورجوں کا فیض حاصل ہے اسے
اس مکمل روشنی سے جو ملا روشن ہوا
آنکھ والوں نے چرا لی روشنی ساری تو پھر
ایک اندھے کی ہتھیلی پر دیا روشن ہوا
ایک وحشت دائرہ در دائرہ پھرتی رہی
ایک صحرا سلسلہ در سلسلہ روشن ہوا
مستقل اک بے یقینی، اک مسلسل انتظار
پھر اچانک ایک چہرہ جا بجا روشن ہوا
آج پھر جلنے لگے بیتے ہوئے کچھ خاص پل
آج پھر اک یاد کا آتش کدہ روشن ہوا
جانے کس عالم میں لکھی یہ غزل تم نے نبیلؔ
خامشی بجھنے لگی، شہر صدا روشن ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.