محبت اب عداوت لگ رہی ہے
محبت اب عداوت لگ رہی ہے
بڑی مشکل میں قدرت لگ رہی ہے
فقیہ شہر تو خود پر سکوں ہے
مگر سولی پہ امت لگ رہی ہے
تمہارے قتل سے لگتا ہے ایسے
مرے سر کی بھی قیمت لگ رہی ہے
فضاؤں میں لہو کی بو بسی ہے
بہت بے چین فطرت لگ رہی ہے
میں اپنے عہد نو کی کربلا ہوں
مرے خوں میں شہادت لگ رہی ہے
مقدر سو رہا ہے خاک اوڑھے
زمین سخت راحت لگ رہی ہے
فصیل شہر پر تو روشنی ہے
مگر داؤ پہ عزت لگ رہی ہے
میں اپنے ملک میں آیا ہوں جب سے
عجب بے چین صورت لگ رہی ہے
منڈیروں پر کہیں چڑیاں نہیں ہیں
عجب اس گھر کی حالت لگ رہی ہے
زمیں میں نفرتیں بوئی گئی ہیں
ہری شاخوں پہ تہمت لگ رہی ہے
سکوں میں ہیں منافق شہر بھر کے
ہمیں یہ سانس ذلت لگ رہی ہے
وہاں مصروفیت تھی چار جانب
یہاں فرصت ہی فرصت لگ رہی ہے
رکے یہ قافلۂ جاں کہیں پہ
بے معنی اب مسافت لگ رہی ہے
میں اپنے آپ کو غرقاب کر دوں
بچاؤ کی یہ صورت لگ رہی ہے
خدایا مشکلیں آسان کر دے
مجھے گھر میں بھی وحشت لگ رہی ہے
وہاں بے چین ہے وہ کل سے صفدرؔ
اسے میری ضرورت لگ رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.