محبت جلوۂ رخسار بھی ہے
دلچسپ معلومات
(12ستمبر 1959ء) (تعمیر اردو)
محبت جلوۂ رخسار بھی ہے
محبت کاکل خم دار بھی ہے
تجلی مانع دیدار بھی ہے
نظر کی راہ میں دیوار بھی ہے
وہ سادہ ہی نہیں پرکار بھی ہے
بکار خویش جو ہشیار بھی ہے
بشر دانا بھی ہے ہشیار بھی ہے
مگر مست مئے پندار بھی ہے
محبت مانع اظہار بھی ہے
محبت مائل گفتار بھی ہے
مری تسخیر دل میں کار فرما
تری شیرینئ گفتار بھی ہے
بشر پر ہیں جہاں پابندیاں اور
اسیر سبحہ و زنار بھی ہے
زمانہ صلح دشمن ہے ازل سے
زمانہ برسر پیکار بھی ہے
شفق میں گل میں جام ارغواں میں
مری رنگینیٔ اشعار بھی ہے
محبت کا مزہ کیا پوچھتے ہو
محبت پیار بھی تکرار بھی ہے
فریب خامشی بھی دل نے کھایا
ہلاک شوخیٔ گفتار بھی ہے
جسے کہتے ہیں سب دنیا میں جینا
بہت آساں بہت دشوار بھی ہے
جو نیکی کر کے دریا برد کر دے
کہیں وہ صاحب ایثار بھی ہے
تمنا سربلندی کی تو برحق
مگر کچھ جوہر کردار بھی ہے
جہاں ہیں اور اسباب تنزل
ہماری پستیٔ معیار بھی ہے
اسے مجموعۂ اضداد کہیے
بشر مجبور بھی مختار بھی ہے
وہی انساں جو ہے غفلت پہ مائل
رہین جذبۂ بیدار بھی ہے
ادب کو استقامت بخشنے میں
مری برنائی افکار بھی ہے
اسے شعلہ بھی کہیے یہ ہے شبنم
محبت نور بھی ہے نار بھی ہے
تمہاری منتظر مدت سے طالبؔ
چمن میں نرگس بیمار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.