محبت کا فسانہ ہم سے دہرایا نہیں جاتا
محبت کا فسانہ ہم سے دہرایا نہیں جاتا
بس اب ہم سے فریب آرزو کھایا نہیں جاتا
یہاں تک تو مجھے دست کرم پر ناز ہے ان کے
اگر اب ہاتھ پھیلاؤں تو پھیلایا نہیں جاتا
تماشہ دیکھنے والے تماشہ بن کے رہ جائیں
بقدر درد تم سے دل کو تڑپایا نہیں جاتا
یہ عالم ہے قفس کا در کھلا ہے صحن گلشن میں
مگر صیاد کو اب چھوڑ کر جایا نہیں جاتا
مجھے دیکھو کہ غیروں کو بھی سینے سے لگاتا ہوں
مگر تم سے تو اپنوں کو بھی اپنایا نہیں جاتا
جو آنکھیں دیکھ لیتی ہیں خزاں کا دور پھر ان سے
بہاروں کا فریب رنگ و بو کھایا نہیں جاتا
میں ان کو بے رخی کا کس لئے الزام دوں جعفرؔ
اندھیرے میں تو اپنا دو قدم سایا نہیں جاتا
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 130)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.