محبت کا تجھے عرفان بھی ہے
دلچسپ معلومات
14؍اگست 1956)
محبت کا تجھے عرفان بھی ہے
محبت کفر بھی ایمان بھی ہے
تضاد حضرت انساں نہ پوچھو
فرشتہ بھی ہے یہ شیطان بھی ہے
یہی ثابت ہوا ہے زندگی سے
جو دانا ہے وہی نادان بھی ہے
بہت بے ربط ہے روداد ہستی
اس افسانے کا کچھ عنوان بھی ہے
اسی کا زندگی ہے نام شاید
کچھ الجھن بھی کچھ اطمینان بھی ہے
نہ کھا موجوں کی خاموشی سے دھوکا
اسی پردے میں اک طوفان بھی ہے
نکالیں کس طرح حسرت کو دل سے
مسافر بھی ہے یہ مہمان بھی ہے
یہ جینا ہاں یہ جینا ہاں یہ جینا
بہت مشکل بہت آسان بھی ہے
خدا لگتی کبھی تو بات کہہ دے
ترا کچھ دین کچھ ایمان بھی ہے
نوازش سی نوازش ہو رہی ہے
کرم بھی آپ کا احسان بھی ہے
سخن پر آپ نازاں تو ہیں طالبؔ
سخن میں آپ کے کچھ جان بھی ہے
یہ ہندو یہ مسلماں یہ مسیحی
مگر ان میں کوئی انسان بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.