محبت کی حرارت سے ہوا سارا لہو آتش
محبت کی حرارت سے ہوا سارا لہو آتش
تخیل شبنمی ہے گرچہ میری گفتگو آتش
نگار زندگی میں اس کے دم سے ہی اجالا ہے
چمن ویرانہ ہوتا گر نہ ہوتی آرزو آتش
خوش آتی ہے ہم آشفتہ سروں کو اس کی یہ عادت
کبھی مانند شبنم اور ہوتا ہے کبھی آتش
جھلس جاتی ہیں وہ آنکھیں جنہیں کچھ خواب بننے تھے
بنا دی عہد نو کی نفرتوں نے جستجو آتش
عبارت آج کل کی زندگی ہے ان عناصر سے
سیاست آمریت خون ناحق کو بہ کو آتش
طمانیت کی لازم شرط ہے خوش نیتی ورنہ
تگ و دو بے بضاعت اور ساری ہاؤ ہو آتش
ظفرؔ سے اب تو نظریں بھی ملانا آزمائش ہے
کہ گرمیٔ جہاں سے ہو گیا ہے مو بہ مو آتش
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.