محبت کو نہ رکھو دل کے نازک آبگینوں میں
محبت کو نہ رکھو دل کے نازک آبگینوں میں
یہ ایسا آب زم زم ہے جسے رکھتے ہیں ٹینوں میں
سمندر کا سفر کیسے کریں گے وہ سفینوں میں
جو بزدل ڈر کے مارے ڈوب جاتے ہیں پسینوں میں
بڑی تشویش پھیلی ہے وطن کے تارکینوں میں
انہیں ملتی ہیں سو سو دھمکیاں دو دو مہینوں میں
عجائب گھر میں رکھیے یہ کسی قارون کا سر ہے
ملا ہے یہ بھی آثار قدیمہ کے دفینوں میں
دل گم گشتہ میرا ان کے بٹوے سے نکل آیا
عبث ڈھونڈا کیے ہم آسمانوں اور زمینوں میں
مسلم ہے جناب شیخ کی پاکیزہ دامانی
کہ بن پوچھے چلے جاتے ہیں وہ پردہ نشینوں میں
بگڑتی ہے کبھی قسمت کبھی بیوی کبھی موٹر
یقیناً مشترک ہے کوئی سی اک چیز تینوں میں
خداوندا نہ جانے ان ترے بندوں پہ کیا گزرے
نکل آتے ہیں جیتے جاگتے چوزے مشینوں میں
ادھر ڈوبے ادھر ابھرے ادھر ابھرے ادھر ڈوبے
محبت بحر ہے اور اپنا مسکن سب مرینوں میں
خدا ہی لاج رکھ لیتا ہے بیمار محبت کی
وہ جب تشریف لاتے ہیں تو روزوں کے مہینوں میں
جنہیں اقبال نے سینچا تھا اپنے خون سے بلبلؔ
ہم اپنے ہل چلانے لگ گئے ہیں ان زمینوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.