محبت کو پذیرائی ملی ہے
محبت کو پذیرائی ملی ہے
تمہارے در سے رسوائی ملی ہے
بہار لالہ و گل کو چمن میں
ترے عارض سے رعنائی ملی ہے
ہوا وہ خود سے بیگانہ جہاں میں
جسے تیری شناسائی ملی ہے
جنوں کے فیض سے پائے طلب کو
متاع آبلہ پائی ملی ہے
تری محفل میں ضبط دل کے صدقے
خموشی کو بھی گویائی ملی ہے
تری آنکھوں میں ہم ڈوبے تو دل کو
سمندر کی سی گہرائی ملی ہے
ہوئے آباد ہم برباد ہو کر
بصارت کھو کے بینائی ملی ہے
ہمیں زندہ کیا مردہ دلی نے
تجھے شان مسیحائی ملی ہے
وہی ہے محرم اسرار جس کو
جنوں کے در سے دانائی ملی ہے
طفیلؔ اس شہر یار شہر گل سے
نگار گل کو زیبائی ملی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.