مدت ہوئی خموشیٔ اظہار حال کو
مدت ہوئی خموشیٔ اظہار حال کو
آب صدا ہی دیجئے دشت خیال کو
پھر ایک شاخ زرد گری خاک ہو گئی
پھر برگ نو ملے شجر ماہ و سال کو
جھونکا یہ کس کے لمس گریزاں کی طرح تھا
اب حل ہی کرتے رہئے ہوا کے سوال کو
ہم رنگ ماہتاب تھا وہ اس میں کھو گیا
اب کتنی دور پھینکیے نظروں کے جال کو
شب بھر ہوا کے رنگ بدلتے رہے نئے
میں دیکھتا رہا سفر بر شگال کو
جائے گا خون شب نہ کسی طور رائیگاں
منہ پر ملے گی صبح شفق کے گلال کو
جچتے نہیں نگاہ میں خوشیوں کے آفتاب
دل ڈھونڈھتا ہے کس غم زہرہ جمال کو
انسانیت کے درد کی آواز بن سکے
سوز نوا سے سینچئے زخم خیال کو
دیجے پھر آب دیدۂ تر سے حیات نو
فن و ادب کے سبزۂ نو پائمال کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.