مدت سے آرزو ہے دل بے قرار میں
کچھ تو کمی ہو تلخی لیل و نہار میں
کیا جانے کیسے ہو گیا کیونکر یہ ہو گیا
رونق رہی نہ پہلی سی فصل بہار میں
تکمیل شوق میں نہ کبھی مل سکی وہ شے
جو تھی قدم قدم تپش انتظار میں
آب رواں کی پہنچیں یہاں تک کثافتیں
گھٹنے لگا ہے ماہی کا دم جوئے بار میں
دنیا کی تلخیوں نے اسے بھی مٹا دیا
ملتا تھا بانکپن جو کبھی نگہ یار میں
عشرت ملے ہر ایک کو تو کوئی بات ہے
یہ کیا کہ بٹ رہے وہ فقط دو ہی چار میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.