مدتوں کے بعد پھر ان کے پیام آنے لگے
مدتوں کے بعد پھر ان کے پیام آنے لگے
وقت پھر بھولے ہوئے قصے نہ دہرانے لگے
جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پھر لہریں اٹھیں
پھر گئے موسم کے پنچھی لوٹ کر آنے لگے
ہم کہ پتھر تھے نشان میل بن کر رہ گئے
خود نہ چل پائے تو سب کو راہ دکھلانے لگے
داستانوں میں جو پریاں قید تھیں سب اڑ گئیں
شہر جاں میں خوف کے آسیب منڈلانے لگے
گھر کے سب دیوار و در ہیں گھر کے بوڑھوں کی طرح
میں کسی شب دیر سے لوٹا تو سمجھانے لگے
کیفؔ دن بھر کی تھکی ہاری تمناؤں کو ہم
رات آئی تو قبا خوابوں کی پہنانے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.