مدتوں سے جمی برف کے جوں ہی تودے پگھلنے لگے
مدتوں سے جمی برف کے جوں ہی تودے پگھلنے لگے
گہرے نمکین پانی جہازوں کے پیندے نگلنے لگے
میں کہیں بیٹھ کر بیتے لمحوں کو تسبیح کرتا رہا
اور آنکھوں کی تہہ میں چھپے رنگ پرتیں بدلنے لگے
تیز آندھی کسی موج میں میرے آثار کو چھو گئی
اور کسی عہد کے کتنے متروک معبد نکلنے لگے
میں زمانے کی سرحد سے اس پار تھا اور خاموش تھا
میں نے ان کے بھی حصے کا گایا تو وہ ساتھ چلنے لگے
وقت کی لے مرے ساتھ ہم رقص تھی اور بغل گیر تھی
پھر سبھی سرمدی نغمے آزردہ سازوں میں ڈھلنے لگے
میں پلٹ آیا ہوں خشک ہوتے ہوئے ساحلوں کی طرف
اب مجھے اس سے کیا پتھروں سے بھی چشمے ابلنے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.