مفلسی نے سر پہ اک سادہ ضرورت اوڑھ لی
مفلسی نے سر پہ اک سادہ ضرورت اوڑھ لی
نقد حرمت بیچ کر بدلے میں غربت اوڑھ لی
اک طلسم انداز آئین ہوا کی وضع پر
چہرۂ نورس نے ست پرتوں کی رنگت اوڑھ لی
شیشۂ مستی میں دانائی کا ٹانکا جوڑ لوں
نو گداز دل نے بہہ جانے کی حسرت اوڑھ لی
تلخیٔ آواز سے سب نے لیا کار سپاہ
عقل کے دیباچہ کاروں نے سیاست اوڑھ لی
پیش منظر میں تھا میرے اپنے ہونے کا سوال
کانپتی اک بے جوازی چپ نے لکنت اوڑھ لی
دیر تک عکس آفرینی کے دیے جلتے رہے
پھر نہال شب نے بے ہنگام غفلت اوڑھ لی
یہ جو کوئے زیست کے چند اختتامی لوگ ہیں
کیا ہوا دائمؔ عدم کی سب نے تہمت اوڑھ لی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.