مجھ کو اب عشق کے ادراک سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو اب عشق کے ادراک سے ڈر لگتا ہے
اب تو ہر جذبۂ بیباک سے ڈر لگتا ہے
گردش وقت نے وہ زخم دئے ہیں کہ مجھے
رقص کرتے ہوئے ہر چاک سے ڈر لگتا ہے
کیا خبر کون سے صفحے کا لکھا لے ڈوبے
اس لیے دفتر افلاک سے ڈر لگتا ہے
نرم لفظوں سے بنا طنز بھرا پہناوا
آدمی کی اسی پوشاک سے ڈر لگتا ہے
جس کی تخلیق ہوئی خاک سے حیرت یہ ہے
موت کے ڈر سے اسے خاک سے ڈر لگتا ہے
فصل کانٹوں کی اگی ایسی چمن میں اس بار
صحن گل کے خس و خاشاک سے ڈر لگتا ہے
اس کی قربت کا فسوں سوچ بدلتا ہے مری
دل کی اس حالت بے باک سے ڈر لگتا ہے
یاد ہے وقت جدائی وہ نمی آنکھوں کی
اب تو ہر دیدۂ نمناک سے ڈر لگتا ہے
ہجر میں دل مرا رک رک کے چلا کرتا ہے
دل کی اس حالت غم ناک سے ڈر لگتا ہے
آدمی کو کرے ارزاں ہو جو فتنے کا سبب
ایسے ہر جذبۂ سفاک سے ڈر لگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.