مجھ کو فریب دینے کی کوشش بہت ہوئی
مجھ کو فریب دینے کی کوشش بہت ہوئی
پھیکے تبسموں کی نمائش بہت ہوئی
پانی بھی اتنا برسا کے طوفان آ گئے
اس سال پتھروں کی بھی بارش بہت ہوئی
ہم سے تمام سال کی تفصیل پوچھیے
ہمدردیوں کے نام پہ سازش بہت ہوئی
جتنے گھنے درخت تھے جڑ سے اکھڑ گئے
کل رات آندھیوں کی نوازش بہت ہوئی
نقاد بھی تعلق خاطر میں بہہ گئے
تنقید کم ہوئی ہے ستائش بہت ہوئی
پیچیدہ مسئلوں نے سنبھلنے نہیں دیا
جینے کی طرح جینے کی خواہش بہت ہوئی
بینائی حیرتوں سے نہ باہر نکل سکی
پردے کے پیچھے سایوں میں جنبش بہت ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.