مجھ کو فرقت کی اسیری سے رہائی ہوتی
مجھ کو فرقت کی اسیری سے رہائی ہوتی
کاش عیسیٰ کے عوض موت ہی آئی ہوتی
عاشقی میں جو مزہ ہے تو یہی فرقت ہے
لطف کیا تھا جو اگر اس سے جدائی ہوتی
گر نہ ہو شمع تو معدوم ہیں پروانے بھی
تو نہ ہوتا تو صنم کب یہ خدائی ہوتی
غیر سے کرتے ہو ابرو کے اشارے ہر دم
کبھی تلوار تو مجھ پر بھی لگائی ہوتی
اس کی ہر دم کی نصیحت سے میں تنگ آیا ہوں
کاش ناصح سے بھی آنکھ اس نے لڑائی ہوتی
ہوں وہ غم دوست کہ سب اپنے ہی دل میں بھرتا
غم عالم کی اگر اس میں سمائی ہوتی
خط کے آغاز میں تو مجھ سے ہوا صاف تو کب
لطف تب تھا کہ صفائی میں صفائی ہوتی
ابر رحمت سے تو محروم رہی کشت مری
کوئی بجلی ہی فلک تو نے گرائی ہوتی
دشت پر خار میں مہندی کی ہوس بھی نکلی
کب ہماری کف پا ورنہ حنائی ہوتی
دھوئی کیوں اشک کے طوفان سے لوح محفوظ
سرنوشت اپنی ہی ناسخؔ نے مٹائی ہوتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.