مجھ مست کو مے کی بو بہت ہے
مجھ مست کو مے کی بو بہت ہے
دیوانے کو ایک ہو بہت ہے
موتی کی طرح جو ہو خداداد
تھوڑی سی بھی آبرو بہت ہے
جاتے ہیں جو صبر و ہوش جائیں
مجھ کو اے درد تو بہت ہے
مانند کلیم بڑھ نہ اے دل
یہ درد کی گفتگو بہت ہے
بے کیف ہو مے تو خم کے خم کیا
اچھی ہو تو اک سبو بہت ہے
کیا وصل کی شب میں مشکلیں ہیں
فرصت کم آرزو بہت ہے
منظور ہے خون دل جو اے یاس
اپنے لیے آرزو بہت ہے
اے نشتر غم ہو لاکھ تن خشک
تیرے دم کو لہو بہت ہے
چھیڑے وہ مژہ تو کیوں میں روؤں
آنکھوں میں خلش کو مو بہت ہے
غنچے کی طرح چمن میں ساقی
اپنا ہی مجھے سبو بہت ہے
کیا غم ہے امیرؔ اگر نہیں مال
اس وقت میں آبرو بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.