مجھ میں ہر طوفان ہے عکس نظر میں کچھ نہیں
مجھ میں ہر طوفان ہے عکس نظر میں کچھ نہیں
دل کی سوزش دیکھیے تو چشم تر میں کچھ نہیں
رات کا سارا سمندر پار کر آئی مگر
آگہی کے پاس تائید سحر میں کچھ نہیں
میں بر آمد کرتا آیا ہوں زمین و آسماں
آج کیا ہے کیسے زنبیل ہنر میں کچھ نہیں
جس نے کی ہیں عمر بھر بس ذات کی غواصیاں
وہ تو پھر سمجھے گا کہ رنگ دگر میں کچھ نہیں
زیست کا پینڈا ہوا یا دو قدم رستہ ہوا
نیند میں چلتے رہے ہو تو سفر میں کچھ نہیں
چپ کی چھاؤں تھام کر جلتا رہے سورج تلے
جب پرندے ہی نہیں تو پھر شجر میں کچھ نہیں
لوٹ جاؤ زندگانی کے حقائق کی طرف
ان حکایات طویل و مختصر میں کچھ نہیں
دیکھ لو آخر یہی لائی مجھے تا بہ فلک
لوگ کہتے تھے کہ اب اس رہگزر میں کچھ نہیں
جیسے دریا ہو کسی گہرے سمندر میں ظفرؔ
آج اس منزل پہ پہنچا ہوں جدھر میں کچھ نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.