مجھے بچا بھی لیا چھوڑ کر چلا بھی گیا
مجھے بچا بھی لیا چھوڑ کر چلا بھی گیا
وہ مہرباں پس گرد سفر چلا بھی گیا
وگرنہ تنگ نہ تھی عشق پر خدا کی زمیں
کہا تھا اس نے تو میں اپنے گھر چلا بھی گیا
کوئی یقیں نہ کرے میں اگر کسی کو بتاؤں
وہ انگلیاں تھیں کہ زخم جگر چلا بھی گیا
مرے بدن سے پھر آئی گئے دنوں کی مہک
اگرچہ موسم برگ و ثمر چلا بھی گیا
ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار
کھلا کے پھول مرا خوش نظر چلا بھی گیا
عجیب روشنیاں تھیں وصال کے اس پار
میں اس کے ساتھ رہا اور ادھر چلا بھی گیا
کل اس نے سیر کرائی نئے جہانوں کی
تو رنج نارسیٔ بال و پر چلا بھی گیا
- کتاب : ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے (Pg. 63)
- Author :عرفان صدیقی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.