مجھے تو یوں بھی اسی راہ سے گزرنا تھا
مجھے تو یوں بھی اسی راہ سے گزرنا تھا
دل تباہ کا کچھ تو علاج کرنا تھا
مری نوا سے تری نیند بھی سلگ اٹھتی
ذرا سا اس میں شراروں کا رنگ بھرنا تھا
سلگتی ریت پہ یادوں کے نقش کیوں چھوڑے
تجھے بھی گہرے سمندر میں جب اترنا تھا
ملا نہ مجھ کو کسی سے خراج اشکوں میں
ہوا کے ہاتھوں مجھے اور کچھ بکھرنا تھا
اسی پہ داغ ہزیمت کے لگ گئے دیکھو
یقیں کی آگ سے جس شکل کو نکھرنا تھا
میں کھنڈروں میں اسے ڈھونڈتا پھرا فکریؔ
مگر کہاں تھا وہ آسیب جس سے ڈرنا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.