مجرم ہیں اگر ہم نے ترا نام لیا ہے
مجرم ہیں اگر ہم نے ترا نام لیا ہے
ہم نے تو فقط شکوۂ حالات کیا ہے
یہ زخم یہ چیخیں یہ برستی ہوئی آنکھیں
وہ کیسا مسیحا ہے جو یوں جلوہ نما ہے
وہ لوگ ہیں کیوں پیاس کی تہذیب کے خالق
دریاؤں کا تحفہ جنہیں ورثے میں ملا ہے
اے کشتیٔ زرکار میں بیٹھے ہوئے لوگو
اس سمت بھی دیکھو تو کوئی ڈوب رہا ہے
اس شخص کے دل میں ہے نہاں کون سا طوفاں
آواز کے موسم میں جو چپ چاپ کھڑا ہے
کچھ تو ہی بتا اے شب ہجراں کی سیاہی
نکلا نہیں خورشید کہ پھر ڈوب گیا ہے
کس آس پہ پوجے گا بتوں کو کوئی ناداںؔ
اس دور نے ہر بت کا بھرم توڑ دیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.