مخالف ہو زمیں میری کہ دشمن آسماں میرا
مخالف ہو زمیں میری کہ دشمن آسماں میرا
رہے گا رہتی دنیا تک چمن میں آشیاں میرا
میں چاہوں بھی تو کھل سکتا نہیں راز نہاں میرا
کہ اس محفل میں کوئی بھی نہیں ہے ہمزباں میرا
نہیں ممکن کہیں بھی مل سکے مجھ کو نشاں میرا
اگر دامن نہ چھوڑیں گے یہ ناقوس و اذاں میرا
یقیں ہے مجھ کو اپنے دست و بازو عزم و ہمت پر
بلا سے گر مخالف ہے یہ دور آسماں میرا
اڑا کر لے چلی ہے مجھ کو منزل کی کشش دیکھوں
کہاں تک ساتھ دیتے ہیں یہ اہل کارواں میرا
ابھی امید کا دامن ہے میرے دست ہمت میں
خدا رکھے سلامت ہے ابھی عزم جواں میرا
یہ دنیا ہے حوادث گاہ یا مکتب محبت کا
زمانہ ہر قدم پر لے رہا ہے امتحاں میرا
مسلسل بارش فولاد و آتش ہے جہاں میں ہوں
نہ راس آئے گا تجھ کو عالم برق و دخاں میرا
پنپتے ہیں یہاں بوٹے نہ کھلتی ہیں یہاں کلیاں
خزاں خوردہ چمن صر صر زدہ ہے گلستاں میرا
اگر یوں ہی رہی گردش میں دنیا تو عجب کیا ہے
پھر اک دن سجدہ گاہ قدسیاں ہو آستاں میرا
گل و بلبل کو نذر طاق نسیاں کر چکا ہوں میں
معرا کیوں نہ ہو حسن تصنع سے بیاں میرا
ابھی وہم و گماں کی وادیوں میں تو ہے سرگرداں
تری منزل سے کوسوں بڑھ گیا ہے کارواں میرا
یہ شعر و شاعری ہے اشکؔ اقلیم سخن مجھ کو
قلم میرا علم ہے اور زباں میری نشاں میرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.