مخاطب چشم ساقی ہو تو پھر آرام ملتا ہے
مخاطب چشم ساقی ہو تو پھر آرام ملتا ہے
نگاہیں منتظر ہیں دیکھیے کب جام ملتا ہے
خودی کو چھوڑ دیتا ہے مٹاتا ہے جو ہستی کو
اسی کو چین اطمینان اور آرام ملتا ہے
محبت میں بہت آسان ہے بدنام ہو جانا
بڑی مشکل سے دنیا میں کسی کو نام ملتا ہے
چھلک جاتے ہیں پیمانے پتہ چلتا نہیں دل کا
نظر سے جب نظر اور جام سے جب جام ملتا ہے
ازل ہی میں فرشتوں نے کیا تھا سجدہ آدم کو
افق پر یوں زمیں سے آسماں کا بام ملتا ہے
ثمر الفت کا کلفت ہے حقیقی ہو مجازی ہو
دل ناداں محبت میں کہیں آرام ملتا ہے
گلہ کیسا شکایت کیوں نہ کر شکوہ زمانے سے
صدفؔ تجھ کو ترے اعمال کا انجام ملتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.