مختصر یہ ہے حقیقت عشق کے آزار کی
مختصر یہ ہے حقیقت عشق کے آزار کی
عمر بھر تیمار داری کی دل بیمار کی
چین لینے دے دل مضطر کسی دم بہر شغل
تو نے او کم بخت اب تو زندگی دشوار کی
ہجر کی شب سوچتا ہوں میں کہاں ہوں کون ہوں
دیکھتا ہوں غور سے صورت در و دیوار کی
اب تو جی گھبرا گیا حور و جناں کے ذکر سے
حضرت واعظ بھلا حد ہے کوئی طومار کی
آہ و زاری کی کبھی اختر شماری کی کبھی
کس مصیبت سے کٹی ہے رات ہجر یار کی
خوب سوچے حضرت واعظ جو چپکے پی گئے
لاج رکھ لی آپ نے جو جبہ و دستار کی
غم نہیں کچھ بہہ گیا آنکھوں سے گر خون جگر
ہو گئی پوری خوشی تو دیدۂ خوں بار کی
آج کیا سمجھا ہے ساقی نے جو مے دیتا نہیں
میں نے توبہ اس سے پہلے بھی تو لاکھوں بار کی
اے اسیران قفس کیا آئیں گے ایسے بھی دل
پھر کبھی دیکھیں گے صورت ہم گل و گلزار کی
اب تو وہ ہر بات پر کر دیتے ہیں فوراً نہیں
پڑ گئی ہے ایسی کچھ عادت انہیں انکار کی
آج کچھ برہم تھے وہ بھی اور ہم بھی تھے بھرے
باتوں ہی باتوں میں نوبت آ گئی تکرار کی
دے چکی جب نزع کی حالت میں گویائی جواب
پوچھنے بیٹھے ہیں خواہش آہ اب بیمار کی
ہر قدم پر آبلوں سے اک نئی تکلیف ہے
کس طرح طے ہوگی منزل وادیٔ پر خار کی
ہو سکی عشرتؔ نہ کوشش آہ کوئی کامیاب
ہر گھڑی کرتے رہے تدبیر وصل یار کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.