ملاقاتوں کا ایسا سلسلہ رکھا ہے تم نے
ملاقاتوں کا ایسا سلسلہ رکھا ہے تم نے
بدن کیا روح میں بھی رت جگا رکھا ہے تم نے
کوئی آساں نہیں تھا زندگی سے کٹ کے جینا
بہت مشکل دنوں میں رابطہ رکھا ہے تم نے
ہم ایسے ملنے والوں کو کہاں اس کی خبر تھی
نہ ملنے کا بھی کوئی راستہ رکھا ہے تم نے
جنوں کی حالتوں کا ہم کو اندازہ نہیں تھا
دیے کہ شہ پہ سورج کو بجھا رکھا ہے تم نے
ہوا کو حبس کرنا ہو تو کوئی تم سے سیکھے
دریچے بند دروازہ کھلا رکھا ہے تم نے
اب ایسا ہے کہ دنیا سے الجھتے پھر رہے ہیں
عجب کیفتیوں میں مبتلا رکھا ہے تم نے
خزاں جیسے ہرے پیڑوں کو رسوا کر رہی ہے
سلوک ایسا ہی کچھ ہم سے روا رکھا ہے تم نے
رہائی کے لیے زنجیر پہنائی گئی تھی
اسیری کے لیے پہرا اٹھا رکھا ہے تم نے
بریدہ عکس لرزاں ہیں لہو کی وحشتوں میں
یہ کیسا آئینہ خانہ سجا رکھا ہے تم نے
جہاں کردار گونگے دیکھنے والے ہیں اندھے
اسی منظر سے تو پردہ ہٹا رکھا ہے تم نے
محبت کرنے والے اب کہاں جا کر ملیں گے
گزر گاہوں کو تو مقتل بنا رکھا ہے تم نے
- کتاب : duniya aarzoo se kam hai (Pg. 38)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.