ملمع کی فراوانی بہت ہے
ملمع کی فراوانی بہت ہے
مگر ہر سمت ویرانی بہت ہے
حقیقت ہے یہ اب اظہر من الشمس
فروغ فتنہ سامانی بہت ہے
فلک پر ہیں تصور کی کمندیں
عمل پیرا تن آسانی بہت ہے
نہیں ہے سایۂ دیوار سر پر
غرور ظل سبحانی بہت ہے
کہانی ہے یہ لیلائے خرد کی
کہ یہ فتنوں کی دیوانی بہت ہے
چراغ آبلہ پائی ہے روشن
فضائے دشت نورانی بہت ہے
بدلتا ہے کوئی سو روپ بدلے
وہ صورت جانی پہچانی بہت ہے
نظر ساحل پہ رکھ پتوار پر ہاتھ
یہ غم کیسا کہ طغیانی بہت ہے
خدا پر رکھ بھروسا عزم دل میں
بلا سے رات طوفانی بہت ہے
سحرؔ آساں نہیں ہم کو مٹانا
نتیجے میں پشیمانی بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.