منہ ترا کیوں آج زور ناتوانی پھر گیا
منہ ترا کیوں آج زور ناتوانی پھر گیا
اس کے آتے ہی مرے چہرے پہ پانی پھر گیا
بھول کر عاشق تمہارا جا رہا تھا طور پر
دور سے سن کر صدائے لن ترانی پھر گیا
ذلت و رسوائی کی حد بھی ہے کوئی ڈوب مر
اے دل ناکام اب تو سر پہ پانی پھر گیا
اس کے آگے تو نے پھیلایا اگر دست سوال
یاد رکھ اے دل سلوک مہربانی پھر گیا
دل مٹایا تیری خاطر جان کی پروا نہ کی
کس لیے تو ہم سے اے عہد جوانی پھر گیا
بے ستوں کو کاٹ کر لایا تھا ظالم جوئے شیر
کوہ کن کی حسرتوں پر پھر بھی پانی پھر گیا
پتیاں پژمردہ پھولوں کی چمن میں دیکھ کر
سامنے آنکھوں کے دور عیش فانی پھر گیا
کل کھلی تھی جو کلی ہے آج مرجھائی ہوئی
میری نظروں میں مآل زندگانی پھر گیا
بوالہوس کا منہ ہو کالا کان میں کیا کہہ دیا
آپ کے چہرے پہ رنگ ارغوانی پھر گیا
برق بن کر آج وہ محفل میں آئے اس طرح
میری آنکھوں میں مرا عہد جوانی پھر گیا
بھر کے ساقی نے دیا جام شراب ارغواں
شادؔ کے چہرے پہ رنگ شادمانی پھر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.