مردہ رگوں میں خون کی گرمی کہاں سے آئی
مردہ رگوں میں خون کی گرمی کہاں سے آئی
تھی شاخ سبز پھول میں سرخی کہاں سے آئی
یہ عمر رائیگاں یہ سفر خواب میں کٹا
پھر یہ تھکن یہ پاؤں پہ مٹی کہاں سے آئی
دیوار خونچکاں نہ مرا زخم سر ہے سرخ
یہ مصلحت بتا دل وحشی کہاں سے آئی
میں صلح جو ہوا غلط الزام سے خفا
اب پوچھتے ہو بات میں تلخی کہاں سے آئی
الزام تم پہ ہے لب گویا گریز کا
بے باک ہو تو پھر یہ خرابی کہاں سے آئی
مجھ جیسا کم سخن بھی ہے اس بار سخت گو
اس سست آب جو میں روانی کہاں سے آئی
کھلتا ہے موسموں کے تغیر کا مجھ سے رنگ
آخر مرے خمیر کی مٹی کہاں سے آئی
- کتاب : Subh-e-safar (Pg. 71)
- Author : Saleem Shahid
- مطبع : Ham asr, Lahore (1971)
- اشاعت : 1971
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.