میں دوانہ ہوں وہ بھی دوانی ہے
میں دوانہ ہوں وہ بھی دوانی ہے
عشق کی ہم کو چوٹ کھانی ہے
عمر رفتہ کو دیکھنے کے لیے
مجھ کو عمر رواں بڑھانی ہے
ذمہ داری کا بوجھ اٹھ نہ سکا
ناتوانی ہی ناتوانی ہے
سنسنی ہجر کی یوں پھیلی ہے
لگ رہا ہے کہ نوحہ خوانی ہے
کھول دو قفل زنگ آلودہ
تشنگی برسوں کی بجھانی ہے
لاکھ مشکل سہی مگر پھر بھی
زندگانی تو زندگانی ہے
ہجر کی راتوں کا شہنشہ ہوں
تیرگی میری نوکرانی ہے
رنج کا راگ کس نے چھیڑا ہے
آج تو میری عقد خوانی ہے
دوست حق پر جو مر گیا اس کی
تا قیامت امر کہانی ہے
تیر مژگاں کے لگ گئے دل پر
اس لیے جسم ارغوانی ہے
سر گرانی سے خوب لگتا ہے
کہ محبت ضرر فشانی ہے
تیرا کردار مرتضیٰ بسملؔ
تیرا کردار جاودانی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.