مصافحے سے لکیریں کہیں گی ذات کا غم
مصافحے سے لکیریں کہیں گی ذات کا غم
کسی کے ہاتھ نہ لگ جائے میرے ہاتھ کا غم
لگا کے بھیج دیا ہم کو بات بات کا غم
یہ کائنات بڑی ہے کہ کائنات کا غم
بنا گئی ہمیں بے گھر کوئی قفس بدری
منا رہے ہیں ترے مبتلا نجات کا غم
ابھی دھمال کی مستی نہیں طبیعت میں
انڈیل شام کے ساغر میں پوری رات کا غم
شمار میں نہیں آئے مرے سوانح عمر
حیات کاٹ کے لکھنا پڑا حیات کا غم
چلیں تو ہوتی ہے دشت عرب کی دل سے خوشی
ہماری راہ میں پڑتا ہے پر فرات کا غم
میں دین عشق میں ہوں تو ہوس کی دنیا میں
یہ بے نیازی کی خوشیاں وہ خواہشات کا غم
تمام عمر کو شاہدؔ ہوا ہے دامن گیر
سہاگ رات کی بیوہ سے کائنات کا غم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.