مسافران عشق کو وہ دشت وہ دیار دے
مسافران عشق کو وہ دشت وہ دیار دے
برہنگی کے عہد میں جو چادر غبار دے
سحر کی روشنی میں دیکھ زندگی کی میتیں
یہ حادثوں کا شہر جب لباس شب اتار دے
نہ جانے کب سے زندگی کو انتظار ہے مرا
پتا نہیں کہاں ہوں میں کوئی مجھے پکار دے
یہ سچ ہے زندگی مرے قدم کی جنبشوں میں ہے
مگر ذرا صلیب سے کوئی مجھے اتار دے
کھلی ہوئی ہیں جسم کی تمام بند کھڑکیاں
کسی چراغ سے کہو کوئی کرن گزار دے
میں کوہ کوہ دشت دشت چھوڑ دوں نشان پا
جنوں دیا ہے گر مجھے جنوں پہ اختیار دے
یہ کیا کہ دشت زیست میں ہر ایک سمت ریت ہے
کہیں تو موج آب دے کوئی تو آبشار دے
تو کاظمؔ سفیر عہد نو کی بات سن تو لے
پھر اس کے بعد تو اسے مٹا دے یا سنوار دے
- کتاب : کتاب سنگ (Pg. 31)
- Author : کاظم جرولی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.