مسلسل اشک باری کر رہا تھا
مسلسل اشک باری کر رہا تھا
میں اپنی آبیاری کر رہا تھا
مجھے وہ خواب پھر سے دیکھنا تھا
میں خود پہ نیند طاری کر رہا تھا
کئی دن تک تھا میری دسترس میں
میں اب دریا کو جاری کر رہا تھا
مجھے رک رک کے پنچھی دیکھتے تھے
میں پتھر پر سواری کر رہا تھا
گزرنا تھا بہت مشکل ادھر سے
دریچہ چاند ماری کر رہا تھا
کوئی ایٹم تھا میرے جسم و جاں میں
میں جس کی تاب کاری کر رہا تھا
سفینے سب کے سب غرقاب کر کے
سمندر آہ و زاری کر رہا تھا
مجھے فطرت بھی گھستی جا رہی تھی
میں خود بھی ریگ ماری کر رہا تھا
میری ڈیوٹی تھی خیموں کی حفاظت
مگر میں آب داری کر رہا تھا
ستارے ٹمٹمانا رک گئے تھے
میں پھر اختر شماری کر رہا تھا
مجھے بھڑنا تھا کس وحشی سے لیکن
میں کس پاگل سے یاری کر رہا تھا
بہت سے کام کرنے تھے لیاقتؔ
جنہیں میں باری باری کر رہا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.