مصیبت کے بھنور میں بھی شناور وہ سنبھلتا ہے
مصیبت کے بھنور میں بھی شناور وہ سنبھلتا ہے
یقیں ہو جس کو خود پر وہ تلاطم سے نکلتا ہے
ہتھیلی کی لکیروں سے نجومی کی ہی باتوں سے
نکما اور کاہل تو خوشی سے بس اچھلتا ہے
وفا کی راہ میں ہمدم غریبی ہو گئی حائل
تجھے پانے کی خواہش میں مرا تو دل مچلتا ہے
ہواؤں سے نہ گھبراؤ چراغوں کو جلانے دو
شجاعت دیکھ کر اپنی عدو کا دل دہلتا ہے
گئے وہ دن بنی آدم کہا کرتے تھے سچ ہر دم
زباں کو حضرت انساں لباسوں سا بدلتا ہے
سرابوں میں نہ پانی ہے حقیقت یہ پرانی ہے
مگر رہبر ہمارا کیوں نہیں رستہ بدلتا ہے
انا کی تم پرستش کو اصولوں میں گناتے ہو
یہ پروانہؔ مگر بس انکساری سے پگھلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.