مسکراتی ہوئی آنکھیں تھیں کہ جھلمل سے چراغ
مسکراتی ہوئی آنکھیں تھیں کہ جھلمل سے چراغ
اس کے جاتے ہی لگا چل دئے محفل سے چراغ
تیرگی کو ہی مرا راہنما رہنے دے
مجھ کو گمراہ نہ کر دیں کہیں منزل سے چراغ
شب عاشور بتا تجھ کو بھی معلوم نہیں
باعث نور دوعالم ہیں یہ بسمل سے چراغ
کس نے کھولا ہے مرا راز کہ میں ہوں سورج
ہٹ گئے شرم سے خود میرے مقابل سے چراغ
تجھ سے پہلے ہی ہوا نے مرا گھر دیکھ لیا
اب دریچوں میں جلیں گے ذرا مشکل سے چراغ
میں تو غرقاب تلاطم ہوں بڑی مدت سے
کس کو دیتے ہیں صدا آج بھی ساحل سے چراغ
تو کہ رخسار پہ خورشید لئے پھرتا ہے
روشنی مانگتے رہتے ہیں ترے تل سے چراغ
میں تو ساگرؔ کی ہوں اک موج تو پہچان مجھے
جب بھی چاہوں گا میں لے جاؤں گا ساحل سے چراغ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.