مضمر ہے بقا ہستئ عالم کی فنا میں
مضمر ہے بقا ہستئ عالم کی فنا میں
اک جلوۂ وحدت بھی ہے کثرت کی فضا میں
آواز الست آپ کی میں سن تو چکا تھا
اپنے کو پھنسایا ہے بلٰی کہہ کے بلا میں
نیرنگیٔ انداز نظر دیکھ رہا ہوں
ڈوبی ہوئی ہے شوخ نظر شرم و حیا میں
دم توڑتا اس طرح نہ بیمار محبت
شاید کہ اجل بھی تھی شریک ان کی ادا میں
دیکھا ہے جو وحشی کا ترے خاک اڑانا
چکر میں بگولا ہے تو گردش ہے ہوا میں
دیکھو مجھے دیکھا نہ کرو نیچی نظر سے
کیوں کرتے ہو رسوا مجھے بزم رفقا میں
یہ ختم نہ ہوگی نہ کبھی آئے گا وہ دن
کیا فرق شب ہجر میں اور روز جزا میں
لو فصل بہار آتے ہی وہ ہو گیا افشا
جو راز کہ غنچوں کا تھا پوشیدہ صبا میں
کون آیا تھا اے شیخ گیا کون ادھر سے
سجدوں کے نشاں کیسے ہیں نقش کف پا میں
پوچھو یہ سکندر سے کہ شاہی نہ تھی کافی
جو عمر بسر کی ہوس آب بقا میں
ساقی نے جو زاہد کو ذرا آنکھ دکھائی
بے خود ہوئے اک جام مئے ہوش ربا میں
کیوں اہل فنا سے خبر قافلہ پوچھیں
ہم جانتے ہیں گم وہ ہوا راہ بقا میں
لا علم ہوں کیا جانئے کیا اس میں لکھا ہے
ہے نامۂ اعمال مرا دست قضا میں
ڈرتا ہوں کہیں وہ نہ جھجک جائے نہ ڈر جائے
پیدا ہوئی بجلی کی چمک آہ رسا میں
یہ کم ہے درازی میں نہ وہ طول میں کچھ کم
نسبت ہے شب ہجر میں اور زلف دوتا میں
کیوں باندھ نہیں لیتے ہو دل شادؔ کا لے کر
تکمے کی کمی ہے جو گریبان قبا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.