نہ آتی تھی کہیں دل میں نظر آگ
نہ آتی تھی کہیں دل میں نظر آگ
مگر پھر بھی جلی ہے رات بھر آگ
کھلا ہے دل میں اک داغوں کا گلشن
اگلتا ہے مرا زخم جگر آگ
بلایا تھا مجھے بزم طرب میں
لگا دی دل میں کیوں منہ پھیر کر آگ
دکھایا طور پر موسیٰ کو جلوہ
کہاں جا کر بنی ہے راہبر آگ
یہ گریہ اور پھر آہ شرربار
ترقی پر ادھر پانی ادھر آگ
وہ میرا دل جلانا کھیل سمجھے
کرے گی رفتہ رفتہ یہ اثر آگ
شب غم اس قدر رویا ہے کوئی
کہ ڈھونڈے بھی نہیں ملتی سحر آگ
وہ دل پر ہاتھ رکھ کر گئے ہیں
کہ اب جلنے نہ پائے رات بھر آگ
زمانہ کو جلاتا ہے وہ ظالم
نہ بن جائیں کہیں شمس و قمر آگ
یہ کس کی سرد مہری کا اثر تھا
نہ دیکھی طور پر بھی جلوہ گر آگ
کروں کیا آہ سوزاں ہجر کی شب
فرشتوں کے جلا دیتی ہے پر آگ
یہ دشمن کا مکان اپنا ہی گھر ہے
لگا دیں آپ بے خوف و خطر آگ
دل سوزاں یہ کہہ دے چشم تر سے
خدا کے واسطے ٹھنڈی نہ کر آگ
حسد کی آگ میں جلتا ہے اب تک
برستی ہے عدو کی قبر پر آگ
وضو ہو جائیں گے زاہد کے ٹھنڈے
بجھا دے گی کسی کی چشم تر آگ
دل ناداں کو ہم سمجھا چکے تھے
محبت آگ ہے اے بے خبر آگ
سنا مضموں جواب خط کا راسخؔ
اٹھا لایا کہیں سے نامہ بر آگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.